قرآن اور عبداللہ کا پسِ منطر

 کافی عرصہ سے ایک خواہش عبداللہ کے دل میں تھی کے قرآن جو ہمارے ایمان کا بہت بڑا حصہ ہے اس کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ عبداللہ پہلے تو یہ بہانہ بناتا رہا ہے کہ یہ میرا کام نہیں، علماوں کا کام ہے۔ جو سمجھنا ہے ان سے سمجھ لینا چاہیے۔ پھر جب یہ گتھی سلجھی توعبداللہ نے اپنے آپ کو عربی زبان سے ناواقف ہونے کی بنیاد پر اس کام سے منہ موڑ لیا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ عربی زبان سیکھنا عبداللہ نے قرآن کو ناسمجھ کے پڑھنے کا ایک فرضی بہانہ بنالیا۔ اسی بے وقوفی میں عبداللہ کے کوئی زندگی کے 36 سال گزرگئے۔ 

عبداللہ کو یہ بات بہت دیر میں سمجھ آئی کے قرآن صرف علماء کے لیے نہیں۔ یہ تو اللہ کی کتاب ہے اور ہر ایمان والے کے لیے اتاری گئی ہے۔ آپﷺ کے زمانے میں تو سب اس کو پڑھتے تھے، سمجھتے تھے، عمل کرتے تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ہمارے زمانے میں یہ صرف علماوں اور اماموں تک محدود رہ گیا۔ ہم سے کس نے یہ حق چھین لیا کے ہم قرآن کو نہ سمجھیں۔ یہاں یہ بات میں بہت صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ عبداللہ علماوں کا دشمن نہیں۔عبدالہ جانتا ہے کہ علماء اللہ کے وارث ہیں، اگر یہ نہیں ہوتے تو شاہد ہم کب کے ختم ہو چکے ہوتے۔ ہم ضرور علماوں سے رابطے میں رہیں، انھیں مربی بنایئں، ان سے سمجھیں ہر بات جو قرآن ہم سے کہہ راہ ہے۔ مگر یوں علماوں کی آڑ میں قرآن سے ناآشنائی کم از کم اب عبداللہ کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ 

دوسری بات عبداللہ کو یہ سمجھ آئی کہ عربی بے شک سیکھیں مگر اس کی وجہ سے قرآن کے ترجمے جو کہ غالباََ ہر زبان میں موجود ہیں ان کو نظر انداز نہ کریں۔ ہمارے اسلاف نے بہترین ترجمے تیار کر رکھے ہیں، ان کا مطالعہ کریں، ان میں سے جو بات سمجھ نہیں آتی ان پر مزید علماوں سے بات کریں۔ اور ایک نہیں ایک سے زیادہ ترجمے پڑھیں۔ پھر اللہ کے کرم سے تفسیریں موجود ہیں جہاں ہر بات وضاحتوں کے ساتھ موجود ہے ان کا مطالعہ ااور ان پر غورو فکر کریں۔ اس پورے معاملے میں عبداللہ کو عربی زبان کا جاننا غیر ضروری لگا۔ پھر سے بات واضح ہوجاۓ کہ عربی زبان کو جاننے کی قیمت سے عبداللہ انکاری نہیں۔ بلکہ عبداللہ اب بھی عربی زبان پر عبور کرنا چاہتا ہے۔ اس کا ماننا ہے جو مزہ قرآن کو عربی زبان پر عبور حاصل کرنے کے بعد پڑھنے میں ہے وہ کسی میں نہیں۔ مگر عربی نا آنے کی وجہ سے قرآن کا مطالعہ نا کرنا سر تا سر بے وقوفی ہے۔

عبداللہ نے انشاءللہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا ارادہ کیا ہے۔ طریقہ فی الحال یہ طے ہوا ہے کہ عبداللہ قرآن کا ترجمہ پڑھےگا، تفسیر سے اس کو مزید سمجھےگا، اس پر غوروفکر کرےگا، اور پھر بھی اگر کوئی بات سمجھ نہ آئی تو علماوں کا دروازہ کھٹکھٹاے گا۔ یہاں غورو فکر کرنے سے مراد عبداللہ کی  ریفلیکشن کا عمل ہے۔ جہاں عبداللہ اللہ کے ہر حکم اور ہر بات کو اپنے ذاتی تجربات سے اتارے گا۔ اس کا تعلق اپنے تجربات سے بناےگا۔ جہاں کمی ہوگی اسے پورا کرےگا۔ آمین۔

کیونکہ قرآن کا ہی حکم ہے کے اللہ کے مکالمے کو جو اللہ قرآن کے ذریعے کر رہا ہے اس کی دعوت دیں تو انشاءاللہ اس پورے سفر کو عبداللہ میرے ذریعہ اس بلاگ میں رقم کرے گا۔ اس سے ایک تو میرے لکھنے کا شوق پورا ہوگا، دوسرا عبداللہ کے دعوت کا کام بھی کسی طریقے سے ادا ہوگا اور تیسرا کہ ہماری نسلیں بھی  ہماری اس ساری محنت کو پڑھ پائنگی۔ اور اللہ نے چاہا تو اس کو آگے بڑھا بھی پائنگی۔

جزاک اللہ

سید وقار حسین

Comments