فلسطین، میں شرمندہ ہوں

 فلسطین میں شرمندہ ہوں! کیونکہ میرے پاس وقت نہیں کہ تمھارے بارے میں سوچوں۔ تمھارے بارے میں بات کروں، تمھارے بارے میں لکھوں۔

 ایسا نہیں کہ میں اندھا ہوں۔ یا مجھے علم نہیں کہ تم اور تمھارے لوگ کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ مجھے سب دکھ رہا ہے۔ سب علم ہے۔ مگر بس، بےحسی ایسی کے دل کو کچھ اثر ہوتا ہی نہیں۔ یقین کرو، جب تمھارے بچوں کی لاشیں دیکھتا ہوں تو اس ڈر کے مارے انکھیں بند کرلیتا ہوں کہ کہیں میرے اندر کا مرا ہوا ضمیر  جاگ نہ جائے۔   کیونہ یہ جاگ گیا تو پھر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ مجھے ایک پل بھی آرام سے رہنے نہیں دیتا۔ میری روح کیا میرا پورا جسم اس کے رنج کا شکار ہوجاتا ہے۔ 

ایسا بھی نہیں کے میرے پاس تمھارے لیے وقت نہیں۔ مگر بس میں اپنے نفس کی غلامی میں قید ہوں۔ میرے نفس نے میرے مقاصد اور میرے اس دنیا میں ہونے کی وجوہات کو ہی تبدیل کردیا ہے۔ اب میں صرف کماتا ہوں، خرچ کرتا ہوں، سوجاتا ہوں اور پھر کماتا ہوں۔ میرا فارغ وقت یا تو تھرکتے ہوے نامحرم بدنوں کی نظر ہوتا ہے یا پھر میں کانوں میں موسیقی کی دھنوں سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔  نہ مجھے میری آخرت کی فکر اور نہ مجھے میرے ایمان کی۔ بلکہ میرا تو یقین ہی نہیں کہ مجھے لوٹنا بھی ہے۔ مجھے جواب بھی دینے ہیں۔ مجھے حساب بھی دینا ہے۔

خیر، تم بھی سوچتے ہوگے کہ میں کیا تمھاری مدد کرونگا۔ یقینََ تمھیں مجھ پر ترس آتا ہوگا۔ دل میں کہتے ہوگے کہ فلسطین تو صرف دنیا جو کہ فانی ہے اس کے عذاب میں ہے۔ مگر یہ شخضن تو اپنی آخرت کی زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ کی ہے اس کو برباد کر رہا ہے۔ تم مسکرا کر میرے لیے دعا کردیتے ہوگے۔

فلسطین میں شرمندہ ہوں۔ 

آِج جمعہ کا دن ہے۔ جمعہ کی نماز میں ابھی تقریباََ 1 گھنٹہ باقی ہے میرے پاس۔ میں نیت کرتا ہوں کہ آج اللہ سے میں تمھارے لیے امن مانگونگا۔ تمھاری آزادی مانگونگا۔ اللہ نہ مجھ نافرمان کو بہت دیا ہے۔ ایسےگندے گناہوں کے بعد بھی دیا کہ تمھاری سوچ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ میری تمھارے لیے کی ہوئی دعا بھی ضرور سنے گا۔ آج میں ایک اور نیت کرتا ہوں کہ اب سے میں   ہر قسم کی مدد کرونگا۔ جب تک کرونگا جب تک اللہ نے جان دی ہے۔ اب میں پیچھے نہیں ہٹونگا۔ میں علم حاصل کرونگا کہ تمھاری یہ حالت کیوں ہوئی۔ تم کیسے اس عذاب میں آئے اور کیسے اس سے نکل سکتے ہو۔ میں اس پر آواز اٹھانوگا۔ اپنا قلم اٹھاونگا۔

جزاک اللہ

سید وقار حسین۔



Comments