ناپسندیدہ کی آزادی
آج کے جدید مغربی تہذیب سے مرعوب شدہ معاشرے میں ایک اہم بیماری ہمارے اندر پائی جاتی ہے کہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کے پسندیدہ انسان بننا چاہتے ہیں۔ اب اس بیماری میں بھی یہ کھوکلا پن ہے کہ اپنوں سے زیادہ غیروں کے پسندیدہ بننا ہماری ترجیح ہوتی ہے لیکن اس پر کسی اور دن بات کرینگے۔
ہر کسی کو خوش رکھنا، سب کا پسندیدہ ہونا یہ ایک عجب بات ہے۔ مطلب کے میری حیات میں میرا ایسا کچھ ہے ہی نہیں کہ کسی کو اس پر اختلاف ہو۔ یا تو میں کوئی ایسا عالم ہوں کہ سب مجھ سے متفق ہیں یا پھر میں اتنا ادنا ہوں کہ میرا وجود کا کوئی اثر ہی نہیں۔ سب متفق ہوجائیں، یہ ممکن نہیں۔ ہاں میری حیات کا ادنا ہونا بہت حد تک ممکن ہے اور مغرب کو مطلوب بھی ہے کہ میں کہیں سے کچھ بڑا اور اثر کام نہ کرجاوں۔
میرا ماننا ہے کہ آج کے دور میں زندگی میں ہر انسان کو لوگوں کی رائے کی قید سے آزاد ہونے کا فن سیکھنا چاہیے۔ اگر ہم ہر وقت دوسروں کی پسند یا ناپسند کے بارے میں فکر مند رہیں تو خود کو ایک قید خانے میں محسوس کریں گے۔ کسی بڑے کام کے لیے کھڑے ہونے کی ہمت رکھنے والے افراد کبھی کبھی دشمن بنا لیتے ہیں، جو کہ اچھی بات ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی کسی اصول کے لیے کھڑا ہونا سیکھا ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ تھوڑا غور کر کے یہ سوچیں کہ آپ کی زندگی میں تین ایسی چیزیں کیا ہیں جن کے لیے آپ کو لوگوں کی ناپسندیدگی کا سامنا کرنے کو تیار ہونا چاہیے؟ مثلاََ بچوں کی تربیت اپنے ہاتھ میں لینا بجائے یہ کہ اسکول والے یہ کام انجام دیں۔ اگر آپ اس سوال کا جواب دینے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں، تو یہ ایک مسئلہ ہے جس کا حل آپ کو نکالنا ہوگا۔
مخالفت کو قبول کرنے اور اس کے لیے تیار رہنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنی آزادی کے پھولوں کو کھلنے دیتے ہیں۔ ڈریں مت، آگے بڑھیں اور آزاد ہو کر دیکھیں۔
اَللّٰهُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ.
Comments
Post a Comment