قصہ رینڈی پاوش کا / The Story of Randy Pausch


Image by Alexa from Pixabay

 کوئی مجھ سے ایک فہرست بنانے کا کہے جس میں وہ سارے کام موجود ہوں جو مجھے کرنے ہیں اور ساتھ میں یہ شرط بھی لگا دے کہ میری موت چند گھنٹوں میں واقع ہوجائے گی تو بلاشبہ میری فہرست میں استغفار اور فیملی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ مگر رینڈی پاوش نامی ایک کمپیوٹر ساینٹسٹ کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ انھوں نے باوجود  اپنی موت کی پیشگی اطلاع کے ایک خوبصورت کتاب کو لکھنا زیادہ ضروری سمجھا۔ وہ کتاب تھی The Last Lecture۔

اس کتاب کے دو مصنفین ہیں۔ پہلے رینڈی پاوش اور دوسرے جیفری زیسلو۔ جیفری  پیشے سے ایک لکھاری تھے اور جس وقت یہ کتاب لکھی جارہی تھی اس وقت وہ Wall Street Journal نامی مشہور ادارے سے تعلق رکھتے تھے۔رینڈی ایک پروفیسر تھے جن کا تعلق Carnegie Mellon University سے تھا۔ رینڈی کی ایک اہلیہ تھیں اور تین چھوٹے بچےتھے۔ ان کی  یہ واحد کتاب تھی مگر صرف اس کتاب کا اثر ابھی تک دنیا میں موجود ہے۔ ایک مشہور ادارے ABC NEWS کے حساب سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اس کتاب میں موجود امید پرستی کے پیغام سے متاثر ہوئے ہیں۔

یونیورسٹی (Carneige Mellon) کا رواج تھا کہ تمام پروفیسر اپنے دور کے اختتام پر ایک لیکچر دینگے جس میں وہ تمام باتوں کا ذکر کریں جو ان کے لیے بہت اہم تھیں۔ اس روایتی لیکچر کو The Last Lecture کا نام دیا گیا۔ مگر تمام  پروفیسرز سے برعکس رینڈی پاوش کا یہ آخری لیکچر واقعتََہ آخری تھا۔ سنہ 2006 میں رینڈی پاوش کو pancreatic کینسر  کی تشخیص ہوئی اور یہ بات بالکل واضح ہوگئی کے ان کے پاس زیادہ سے زیادہ 3 یہ 4 مہینے ہیں۔ اس وقت اُن کی عمر 45 برس تھی، دوسرے پروفیسرز کی برعکس رینڈی کی آخری لیکچر دینے کی باری بہت جلد آگئی تھی۔ بہرحال، رینڈی نے باوجود کینسر کے 18 ستمبر 2007 کو یہ روایت ادا کی۔ ان کے لیکچر کا عنوان تھا Achieving your childhood dreams. اس لیکچر  میں ویسے تو تقریباََ 400 لوگوں نے شرکت کی مگر جیسے ہی یہ لیکچر Youtube کی زینت بنا توبہت تھوڑے ہی عرصہ میں مقبول ہوگیا اور اب تک اسے تقریباََ 21 ملین لوگ دیکھ چکے ہیں۔

یہ کتاب رینڈی کے یو نیورسٹی میں دیئے گئے لیکچر کی نقل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک کہانی ہے جس میں لیکچر کی تیاری سے لے کر دیگر اہم باتوں کا ذکر ہے جو رینڈی وقت کی کمی یہ پھر موقع کی مناسبت کی وجہ سے اپنے لیکچر میں شامل نہیں کر پائے تھے۔ رینڈی بے شک اپنا بچا ہوا وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ خواہش بھی تھی کے ان کا مقبول ہونے والا لیکچر اور ان کی زندگی کے دوسرے اسباق ایک کتاب میں قلم بند ہوجایں۔ رینڈی نے اپنی کتاب میں ایک اصول کا ذکر کیا ہے کہ "انسان کی زندگی میں موجود اینٹ کی دیواریں انسان کو روکنے کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی موجودگی ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہم کتنی طلب سے وہ چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں"۔ اسی اصول کے بنا پر وقت کی کمی جیسی اینٹ کی دیوار رینڈی کو یہ کتاب لکھنے سے نہ روک پائی۔ 

کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ جس کا عنوان The Last Lecture ہے، رینڈی کے دیئے گئے آخری لیکچر کا پسِ منظر بیان کرتا ہے۔ وہ منظر جس کی خبر ہال میں بیٹھے  اُن 400 یہ پھر Youtube پر 21 ملین دیکھنے والوں کو بالکل نہیں۔ یہ کتاب کا سب سے جذباتی حصہ ہے۔اس حصہ میں رینڈی اپنی اہلیہ کو بجائے فیملی میں وقت دینے کے آخری لیکچر  دینے کے لئے کیسے راضی کرتے ہیں اس کا ذکر ہے۔

کتاب کا دوسرے حصے کا عنوان ہے Really achieving your childhood dreams، جس میں رینڈی اپنے بچپن کے تمام خوابوں کو پورا کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ کام بھی آسان نہیں رہا ہوگا اور مرتے ہوے آدمی کے لئے تو شاہد عجیب ہی لگتا ہوگا۔  مگر اس حصے کی وجہ سے آج دنیا میں موجود  لوگوں کو یہ احساس ضرور ہوتاہوگا کہ باوجود موت کی پیشگی اطلاع کے ایک دیوانہ کیسے اپنے خوابوں کو پورا ہونے پر فخر کرتا تھا۔ خوابوں کے علاوہ اس حصے میں رینڈی نے اپنے دوسرے ذاتی تجربات جیسے کے کینسر کا علاج، بچوں کی پیدائش، نوکری میں مسائل، وقت صحیح استعمال وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ 

کتاب کے آخری حصے (Final Remarks) میں رینڈی نے اپنے تین بچوں اور اہلیہ کے بارے میں لکھا ہے۔ بہت خوبصورتی سے رینڈی نے تینوں بچوں کی خوبیوں کو سراہا ہے۔ رینڈی کا ماننا تھا کہ "والدین کو اپنے بچوں کے لئے خواب دیکھنا نہیں چاہیے، بلکہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ماحول مہیا کریں اور ان کو زور دیں کہ وہ اپنے خواب خود دیکھیں اور خود  پورا کریں"۔ اسی تصور کی بنا پر رینڈی نے اپنے تینوں بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ" اُن کو اپنے خواب پورا کرنے کی فکر ہونی چاہیے ناکہ یہ جاننے کہ میں کیا چاہتا تھا"۔

 یہ کتاب ایک سچی کہانی کی مانند ہے۔ ایسی کہانی جس کو پڑھنے والا جلد ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایک باب ختم ہوتے ہی دوسرے باب کی طرف بھاگتا ہے۔ یہ کتاب بے حد آسان انگریزی میں لکھی گئی ہے مگر جگہ جگہ مصنف نے اپنے تجربے کی بنیاد پر حکمتوں سے بھرے جملے بھی لکھے ہیں جن کو صرف ایک بار پڑھنے سے بات نہیں بنتی۔ اس کتاب میں رینڈی نے کچھ تصاویریں بھی رکھیں ہیں تاکہ قاریئن کہانی پڑھنے کے بعد اس کہانی سے خود کو واقعتََہ جوڑ پایئں۔ آپ نے کبھی کسی کینسر کے مریض شکر ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ اس بات پر رب کا شکرگزار ہے کے کینسر کی وجہ سے کم از کم اس کو وقت تو ملا، کہیں موت حادثاتی ہوتی تو یہ نوبت بھی نہیں ملتی۔ یہ سطح تھی رینڈی کی رجائیت جو کی اس پوری کتاب میں ہر صفحہ اور موضوع میں نظر آئیگی۔ رجائیت کے علاوہ یہ کتاب بھرپور شکرگزاری کے جذبے سے بھری ہوئی ہے۔ 

میرا اس کتاب سے یہ اس کے کسی بھی حصہ سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ  کوئی معاہدہ ۔ مگر رائے یہ ہی ہے کہ اگر کوئی شخض اپنی موت کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہے تو  یہ کتاب اس کام میں بہت مدد کرے گی۔ مثال کے طور پر تھوڑی دیر کے لئے اگر ہم سب رینڈی کی جگہ اپنے آپ کو رکھیں تو ہماری زندگی سے پتہ نہیں کتنی بےمعنی چیزیں نکل جایئنگی۔ خود بہ خود ہم بھی اپنے جانے کے بعد اپنے پیاروں کے لیئے ایسے ہی کوئی خط یہ کتاب چھوڑ کر جانا چاہینگے۔ ہم بھی رینڈی کی طرح ترجیحات کا سفر طے کرنا سیکھ جایئنگے، ہمارے لیے آسان ہوجایئگا  کہ ہم اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا کو دیں یہ بیوی بچوں کو۔ ہمیں بھی فکر ہوگی کہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد ہمارے بچوں اور پیاروں کے پاس کیا وجہ ہوگی ہمیں یاد کرنے کی۔

ہاں یہ بات سچ ہے کہ مشکلیں آیئنگی۔ رکاوٹیں آیئنگی۔ مگر کیونکہ ہماری منصوبہ بندی موت کے اردگرد ہے تو ہمیں ان مشکلوں کا حل نکالنا آسان ہوجایئگا۔ بہت سے رکاوٹیں تو رکاوٹیں ہی نہیں لگینگی۔ اب منزل سے بے پناہ محبت کرنے والے مسافر کو کیا پرواہ کے گاڑی کونسی ہے۔ اسے تو بس سفر پر نکلنا ہے، راستوں میں چل نہیں پایا تو تیر کر چلاجائے گا۔ بس بنیادیں صحیح ہونی چاہیئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ منزل ہی غلط ہو۔ 

اب رینڈی پاوش کہ ہی دیکھلیں، اُن کا اس دنیا کا سفر سنہ 2008 جولائی میں ختم ہوچکا ہے مگر آج بھی ان کی یہ کتاب اُن کو اس دنیا سے دور جانے نہیں دیتی۔ ہر وہ انسان جو اپنی زندگی بامعنی طریقے سے گزارنا چاہتا ہے یہ اپنے جانے کے بعد دنیا کو متاثر رکھنا چاہتا ہے، وہ اس کتاب تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

اگر آپ کو ایسی تحریر پسند ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ میں چند اور نایاب کتابوں اور لکھاریوں کا ذکر کروں تو اپنی رائے سے مجھے آگاہ کیجئے۔ جزاک اللہ۔


x

Comments